تحریر: مولانا سید مشاہد عالم رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی l تحریک دینداری یعنی بیسویں صدی میں قیام مکاتب امامیہ کا عمل ایک الھی وروحانی پلان تھا جس میں خطیب اعظم مولانا سیدغلام عسکری طاب ثراہ کامیاب ہوئے تھے وہ گھڑی کتنی مبارک رہی ہوگی جب مرحوم کے ذہن میں یہ فکر آئی ہوگی جیسے جاں بلب پیاسے کو بے آب وگیاہ صحرا میں پانی مل جائے اور وہ ہلاک ہونے سے بچ جائے قوم کے بچوں کے لئے تعلیم و تربیت کا اتنا اچھا سادہ سستا اور کارآمد انتظام ناممکنات میں سے ہے مگر خلوص نیت للہیت اور محنت و لگن کا نتیجہ ہی الگ ہوتاہے۔
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
مکتب امامیہ کے اعلی تعلیم یافتہ
آج بر صغیر هند و پاک کے بکثرت طلباء وطالبات مکاتب امامیہ سے فراغت پا کر حوزہ ہائے علمیہ قم و نجف میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا بھر میں مکتب أہل بیت کی تبلیغ و ترویج میں سرگرم عمل ہیں خداوند عالم اس شجرہ طیبہ کے سایہ کو دوام واستمرار عطا فرمائے آمین ۔
دور حاضر کچھ اور طالب ہے
مگر دور حاضر کے تقاضے کچھ اور بھی ہیں یقینا اگر آچ خطیب اعظم رحمہ با حیات ہوتے تو عصری تقاضوں کے تحت قوم وملت کے جوانوں کی فکر کرتے اور مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ انہیں عصری علوم سے بھی وہ آراستہ فرماتے حدود دین میں رہ کر اچھی مفید کارآمد اور سستی تعلیم کا پلان ضرور انکے گوشہ ذہن میں رہا ہوگااس لئے کہ وہ ایک تحریکی عالم باعمل تھے فکر کرتے اجتہادی توانائی صرف کرتے اور پھر فراخ دلی سے اہلیت رکھنے والوں کوساتھ لیکر منزل کی طرف بڑھنے کا ہنر جانتے تھے یقینا کوئی بھی تعلیمی و ثقافتی عمل ٹیم ورک کے بغیر ناممکن ہے جہاں ہر فرد تن دہی سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی محنت ولگن سے تلاش کوشش کرتا ہے اور ہر چھوٹی اور بڑی عدد اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہے یہی وہ منزل ہے جہاں ایسے سربراہوں کی اعلی ظرفی دور اندیشی ذاتی مفادات سے بالاتر قومی مفاد کے تحت حکمت عملی تحریک میں چار چاند لگا دیتی ہے چاہے وہ انقلاب اسلامی ایران کی بنیاد ہو یا سر سید تحریک یا پھر تحریک دینداری ہر جگہ قومی مفادات ہر چیز سے بالا تر دکھائی دیتے ہیں جس کے احیا وتجدید کی ضرورت کا احساس مزید بڑھتا جارہا ہے۔
قومی ادارے
ہائے افسوس ہمارےقومی ادارے دینی مدارس اور دینی درسگاہیں اب قومی روح سے خالی ہیں تربیت کا عمل ٹھپ ہے بلکہ دنیوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنتی جارہی ہیں تو اس نابسمانی کے عالم میں قوم جائے تو کس کے پاس جانے کہے تو کس سے کہے پھر ایک غلام عسکری کی ضرورت ہے
اٹھارہ شعبان سن چودہ سو پانچ ہجری مطابق نو مئی انیس سو پچاسی عیسوی تحریک دینداری مولانا غلام عسکری طاب ثراہ کی تاریخ وفات ہے اور یہ تحریر خراج تحسین بھی ہے اور یاد آوری بھی۔
خدا یا مولانا مرحوم اور ان کے تمام رفقاء کار اورقوم کے ان تمام افراد کی جنہوں نے اس تحریک میں دام درم قدم حصہ لیا ہے مغفرت فرما اور اگر وہ باحیات ہیں تو انہیں مزید کار خیر کی توفیق عنایت کر۔
امید ظہور حضرت مھدی کے ساتھ۔
این دعااز من واز جملہ جہان آمین باد